غزل-اترتا ہے فلک

غزل-اترتا ہے فلک Cover Image

اترتا ہے فلک سے میری خاطر برملا جاناں

یہ کہہ کے نوچتا ہے تیرا غم لفظ خدا جاناں

 

 

تصور جگمگاتا ہے دیوالی کے چراغوں سا

مرے زخموں کی رنگولی پہ تیرا نقش پا جاناں

 

 

نیۓ صحرا نوردوں کو عمارت چڈھنی پڑتی ہے 

ہزاروں سیڑھیوں کی دین ہے اک آبلہ جاناں

 

 

میں تصلیب وفا کے بعد کا قصہ ہوں سر سے پا 

یہ میری شاعری اور کچھ نہیں، ہے خوں بہا جاناں

 

 

یہ خون رائیگاں جب قتل گاہوں سے ابھرتا ہے

سنا ہے ڈوب جاتا ہے،  سر محشر خدا جاناں

 

 

سلاخوں کی طرح میں تھام لیتا اپنی باہوں کو

 میرے اندر سے ہو جاتا اگر تو ہی رہا جاناں